Posts

Showing posts with the label Urdu Ghazal

urdu poetry

Image
  New latest Urdu Ghazal 2021 New latest Urdu Ghazal 2021 چھوڑ جانے کو مری راہ میں آتا کیوں ہے آ ہی جاتا ھے تو پھر چھوڑ کے جاتا کیوں ھے آسرا اجنبی دیوار بھی دے دیتی ھے یار شانے سے مرا ہاتھ ہٹاتا کیوں ھے روز ہاتھوں سے ترے گر کے فنا ہوتا ھوں دشتِِ ہستی سے مرا نقش اٹھاتا کیوں ھے کس سے پوچھوں کہ شبِ ماہ نہ آنے والا چاندنی بھیج کے اُمّید جگاتا کیوں ہے میں تو ویسے ہی تجھے مٹ کے ملا کرتا ھوں دل کے شیشے سے مرا عکس مٹاتا کیوں ہے رائگانی میں کئی بار خدا سے پوچھا میں اگر کچھ نہیں بنتا تو بناتا کیوں ہے اب تو اُس آخری انکار کو مدت گذری اب بھی اُس حسنِ جفا کیش سے ناتا کیوں ہے لے پھر اب خود ہی اُٹھا قضیہء دین و دنیا میری جب سُنتا نہیں ، بیچ میں لاتا کیوں ہے کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے کہیں آنکھیں، کہیں چہرا نہیں ہے یہاں سے کیوں کوئی بیگانہ گزرے یہ میرے خواب ہیں رستہ نہیں ہے جہاں پر تھے تری پلکوں کے سائے وہاں اب کوئی بھی سایا نہیں ہے زمانہ دیکھتا ہے ہر تماشہ یہ لڑکا کھیل سے تھکتا نہیں ہے ہزاروں شہر ہیں ہمراہ اس کے مسافر دشت میں تنہا نہیں ہے یہ کیسے خواب سے جاگی ہیں آنکھیں کسی منظر پہ دل جمتا نہیں ہے جو

ghazals || Mirza Ghalib ||

Image
 New latest Urdu Ghazal 2021 New latest Urdu Ghazal 2021 کوئی امید بر نہیں آتی  کوئی صورت نظر نہیں آتی  موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی  آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی  اب کسی بات پر نہیں آتی  جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد  پر طبیعت ادھر نہیں آتی  ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں ورنہ کیا بات کر نہیں آتی  کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں  میری آواز گر نہیں آتی  داغ دل گر نظر نہیں آتا  لو بھی رے چارہ گر نہیں آتی  ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی  کچھ ہماری خبر نہیں آتی  مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی  موت آتی ہے پر نہیں آتی  کعبہ کس منہ سے جاو گے غالب  شرم تم کو مگر نہیں آتی  مرزا غالب  New latest Urdu Ghazal 2021 تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم  ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم مایوسی مال محبت نہ پوچیھے  اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم  لو آج ہم نے توڑ دیا رشتہ امید  لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم  ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے  گو دب گئے ہیں بار غم زندگی سے ہم  گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے  پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم  اللہ رے فریب مشیت کہ آج تک  دنیا کے ظلم س

New Latest ghazal | Mirza Ghalib |

Image
 New Latest Ghazal  Mirza Ghalib New Latest ghazal | Mirza Ghalib |   آہ کو چا ئیے اک عمر اثر ہونے تک  کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک  دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام ہننگ  دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک  عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب  دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک  ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک  ہر تو خور سے ہے شبنم کو ضنا کی تعیلم  میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک  یک نظر بیش نہیں فرصت ہتی غافل  گرمی بزم ہے اک رقص شرر ہونے تک  غم ہستی کا اسد کسی سے ہو جزمرگ علاج  شمح ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک   مرزا غالب 

New Ghazal || Wassi Shah

Image
  New Ghazal " Wassi Shah " New Ghazal || Wassi Shah سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں  تیری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں  تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے  کوئی بھی لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں  تیری یادوں کی خوشبو کھڑکیوں میں رقص کرتی ہے  تیرے غم میں میں سلگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں  نہ جانے ہو گیا ہوں اس قدر حساس میں کب سے  کسی سے بات کرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں  میں سارا دن بہت مصروف رہتا ہوں مگر جوں ہی  قدم چوکھٹ پہ رکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں  بڑے لوگوں کے اونچے بدنما اور سرد محلوں کو  غریب آنکھوں سے تکتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں  تیری کوچے سے اب میرا تعلق واجبی سا ہے  مگر جب بھی گزرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں  ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے میرے دل پر  وصی میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں   وصی شاہ 

poetry ghazal

Image
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں  جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں  ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی  یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں  غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو  نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں  تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا  دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں  آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر  کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں  اب نہ وہ میں نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فراز  جیسے وہ سائے تمنا کے سرابوں میں ملیں  احمد فراز   Urdu Ghazal 2021

Urdu ghazal || Wasi Shah

 تم میری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاو گے  ان کہی بات کو سمجھ گے تو یاد آؤں گا  ہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکٹھے دیکھے  صفحہ زیست کو پلٹو گے تو یاد آؤں  اس جدائی میں تم اندر سے بکھر جائو گے  کسی معذور کو دیکھو گے تو یاد آؤں  اسی انداز سے ہوتے تھے مخاطب مجھ سے  خط کسی اور کو لکھو گے تو یاد آؤں  میری خوشبو تمہیں کھولے گی گلابوں کی طرح  تم اگر خود سے نہ بولے گے تو یاد آؤں  آج تو محفل یاراں پہ ہو مغرور بہت  جب کبھی ٹوٹ کر بکھرو گے تو یاد آؤں