دھمکی میں مر گیا جو، نہ بابِ نبرد تھا عشقِ نبرد پیشہ طلبگارِ مرد تھا
Urdu Latest ghazal by marza Ghalib Urdu Latest ghazal by marza Ghalib دھمکی میں مر گیا جو، نہ بابِ نبرد تھا عشقِ نبرد پیشہ طلبگارِ مرد تھا تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا اڑنے سے پیشتر بھی مِرا رنگ زرد تھا تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں مجموعہٴ خیال ابھی فرد فرد تھا دل تا جگر کہ ساحل دریائے خوں ہے اب اس رہگزر میں جلوہٴ گل آگے گرد تھا جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہِ عشق کی؟ دل بھی اگر گیا تو وہی دل کا درد تھا احباب چارہ سازیٴ وحشت نہ کرسکے زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا یہ لاشِ بے کفن اسدِ خستہ جاں کی ہے حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا مرزا غالب محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا رنگ شکستہ صبحِ بہارِ نظارہ ہے یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا صرفہ ہے ضبطِ آہ میں میرا، وگرنہ میں طَعمہ ہوں ایک ہی نفسِ جاں گداز کا ہیں بسکہ جوشِ بادہ سے شیشے اچھل رہے ہر گوشہٴ بساط ہے سر شیشہ باز کا کاوش کا، دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز ناخن پہ قرض اس گرہِ نیم باز کا تاراجِ کاوشِ غمِ ہجراں ہوا، اسد سین